Monday, 22 August 2016

عمر بشیر کی زندگی کی سچی داستان

عمر بشیر کی زندگی کی سچی داستان 


یہ اسلام آباد کی ایک بین الاقوامی سطح کی عمار ت ہے، جس میں زیادہ تر دفاتر ملکی دفاتر قائم ہیں ۔

کچھ نیشنل کمپنیاں ہیں اور کچھ معروف این جی اوز ہیں، یہ عمارت ایک پس ماندہ ملک میں جدید ترین دنیا کا جزیرہ ہے ، اس میں بے شمار غیر ملکی مرد اور عورتیں کام کرتی ہیں، آپ کو اس میں ایسی عورتیں نظر آتی ہیں، جنہوں نے اسکرٹ پہن رکھے ہیں، سوٹ بوٹ اور ٹائی والے صاحب نظر آتے ہیں، اس چھت کے نیچے انگریزی زبان ، قومی زبان ہے۔ تمام لوگ ایک دوسرے سے انگریزی زبان میں گفتگو کرتے ہیں، تمام دفاتر کا اپنا سیکورٹی سسٹم ہے، سارے دروازے برقی ہے اور آپ جب تک دروازے پر لگے کیمرے کو اپنا سیکورٹی کارڈ نہیں دکھاتے دروازہ نہیں کھلتا اور آپ اس کے اندر داخل نہیں ہوسکتے ۔

میں اس عمارت میں متعدد بار آیا تھا، کبھی فلاں این جی اوز کے چیف ایگزیکٹیو سے ملنے اور کبھی کسی ملٹی نیشنل کے منیجر کے درشن کے لیئے، میں جب بھی آیا میری ملاقات کسی نہ کسی گورے صاحب سے ہوئی، کوئی نہ کوئی غیر ملکی میرا منتظر تھا، ان تجربات کی بنیاد پر میں نے محسوس کیا کہ اس عمارت میں شاید ہی کوئی مقامی باشندہ ہو، اگر ہو تو یقینا سیکورٹی گارڈ، چپراسی یا پھر فرش صاف کرنے والا کارکن ہوگا، ورنہ دفتر کے اندر کسی کرسی، کسی عہدے پر کوئی مقامی آدمی تعینات نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔ لیکن اس دن میں اس ولایتی عمارت میں ایک دیسی شخص سے ملنے گیا تھا، مجھے عمر بشیر سے ملنا تھا۔

عمر بشیر ایک ملٹی نیشنل کمپنی کا کنٹری منیجر تھا، جب اس کے ساتھ میری ملاقات ہوئی تو میرا خیال تھا کہ وہ لازماً کسی عرب ملک کا باشندہ ہوگا، اگرنہ ہوا تو وہ امریکہ یورپ کی کسی ماڈرن ازم سے متاثر ہوکر اسے پاکستان میں تعینات کیا ہوگا، لہذا آج کل وہ دفتر میں بیٹھ کر پاکستان کی بوریت اور خشک زندگی کا رونا روتا ہوگا، وہ شکوہ کرتا ہوگا کہ اس ملک میں’’ شوشل لائف ‘‘ نام کی کوئی چیز نہیں، کلب ہیں نہ ڈسکو ہیں، اف کہاں پھنس گیا۔ اب مجھے تفریح کے لیئے ہر مہینے دبئی جانا پڑتا ہے، سنا ہے بینکاک اور ممبئی بھی بہت سستے ہیں، لیکن میں ابھی وہاں نہیں گیا، مجھے کوئی دوست بتارہاتھا کہ کراچی کے کچھ لوگوں کے اپنے فارم ہاؤسیز  پر ایسے ہی خفیہ کلب بنارکھے ہیں، لیکن وہاں چھاپوں کا ڈر رہتا ہے اور میں کوئی رسک لینے کے لیئے تیار نہیں ہوں وغیرہ وغیرہ۔

غرض عمر بشیر کی شخصیت کے خالی تصورات کے ساتھ جب میں ان کے دفتر میں داخل ہوا تو حیران رہ گیا، ہمارے سامنے مولانا کے حلیئے کا ایک جوان شخص بیٹھا تھا، سیاہ گھنی داڑھی، مونچھوں کی جگہ خالی، ماتھے پر سجدے کا نشان، دانت سفید، آنکھوں میں حیا اور گلاب کے عطر کی ہلکی ہلکی خوشبو، میں اسے دیکھ کر حیران رہ گیا، میں نے آگے پیچھے دیکھا اور جھجکتے جھجکے عرض کیا: ’’ مجھے عمر بشیر صاحب سے ملنا تھا۔ ‘‘ وہ مسکرایا اور دھیمے لہجے میں بولا: ’’ خاکسار ہی کو عمر بشیر کہتے ہیں ۔ ‘‘ میں نے لمبی سانس بھری، جسم کو ڈھیلا چھوڑا اور ٹانگیں سیدھی کر کے بیٹھ گیا، اس نے کہا: ’’ میرے پاس ۴۵؍منٹ ہیں،۱۵؍ منٹ آپ کو اپنے لنچ ٹائم سے دے دوں گا، مجھے معلوم ہے آپ کام کی باتوں کے علاوہ میرے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ جاننا چاہیں گے۔ چنانچہ ہمارے لیئے ایک گھنٹہ کافی ہوگا، ہم سب سے پہلے کام کی بات کرتے ہیں۔ ‘‘ میں اس کے میکنیکل لہجے پر مزید حیران ہوگیا، پھر میں نے فائل کھولی اور عمر بشیر کے سامنے رکھ دی، میں نے نوٹ کیا، جب خاتون اندر داخل ہوئی تو عمربشیر نے نظریں جھکالیں، انہوں نے سکریٹری کی طرف دیکھا تک نہیں، سیکریٹری واپس چلی گئی تو عمر بشیر نے انگریزی میں گفتگو شروع کردی، وہ بڑی خوبصورت انگریزی بول رہے تھے، ان کا لہجہ کیلی فورنیہ کے پڑھے لکھے امریکیوں جیسا تھا، ان کی کمپنی پاکستان میں فلاحِ عامہ کا کوئی ایسا کام کرنا چاہتی تھی، جس سے انتہائی غریب لوگوں کو کوئی فائدہ پہنچ سکے، وہ اس سلسلے میں میری مشاورت چاہتے تھے، انہوں نے بڑے کاروباری انداز سے بات چیت کی، اپنی کمپنی کا پس منظر بیان کیا، اپنا ٹرن آؤٹ بتایا، دنیا بھر میں پھیلے نیٹ ورک کے بارے میں معلومات دیں، دنیا کے کون کون سے ملک میں ان کی کمپنی نے آج تک کیا کیا فلاحی کام کئے؟ انہوں نے اس کے بارے میں بتایا اور آخر میں پاکستانی معاشرے کے اجزاء اس کے مسائل اور فلاحی کاموں کی نوعیت کے بارے میں گفتگو کی۔ ان کی یہ ساری بات چیت انگریزی زبان میں تھی، اور درمیان میں انہوں نے اردو میں جمائی اور ہچکی تک نہ لی۔ وہ مسلسل انگریزی بولتے چلے گئے، آخر میں مَیں نے اپنی معلومات کا حوالہ دیا، وہ تمام سیکٹر بتائے جن میں کام ہوسکتا ہے، اور ان کاموں کے لیئے انہیں کون کون سے کارکن کہاں کہاں مل سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

ہماری یہ بات چیت آدھے گھنٹے تک جاری رہی، آدھے گھنٹے بعد ہم فارغ تھے، انہوں نے کاغذ سمیٹے، سیکریٹری کو بلایا جوں ہی وہ کمرے میں داخل ہوئی، انہوں نے نظریں جھکائیں اور مجھے اگلی ملاقات کا وقت دینے کی ہدایت کردی، انہوں نے لکھوایا کہ اگلی میٹنگ میں فلاں فلاں لوگ بھی ہمارے ساتھ ہوں گے، ان کے کام کرنے کا سارا اسٹائل امریکی تھا، لیکن ان کی شخصیت، ان کا حلیہ، اس اسٹائل سے مطابقت نہیں رکھتا تھا، وہ اس سارے ماحول میں اجنبی اجنبی سے محسوس ہوتے تھے، جوں ہی سیکریٹری باہر گئی انہوں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور اردو میں نرم لہجے میں بولے : ’’ ہم ذاتی گفتگو کرسکتے ہیں۔ ‘‘ میں بڑی دیر سے اپنی بے چینی کو دبائے بیٹھا تھا، میں نے ان پر سوالات کی بوچھار کردی، وہ میرا سوال سنتے رہے، جب میں تھک کر خاموش ہوا تو وہ گویا ہوئے :

’’ میرا تعلق ملتان کے ایک دوردراز علاقے سے ہے، میرا گھر انا مذہبی ہے، والد صاحب مدرسے کے منتظم ہیں، ہم آٹھ بہن بھائی ہیں، ہمارے خاندان کا کوئی فرد آج تک ملک سے باہر نہیں گیا، میری تعلیم و تربیت بھی مذہبی ماحول میں ہوئی، مجھے مدرسے کے ساتھ ساتھ عام اسکول میں بھی داخل کردیا، میرا ذہن اچھا تھا، میں نے ایک طرف حفظ کیا اور دوسری طرف عام عصری تعلیم میں آگے بڑھتا گیا ، میں اسکول میں ہمیشہ پہلی پوزیشن حاصل کرتا تھا، میں نے میٹرک بورڈ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ گاؤں میں انگریزی تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ میں نے اس کا حل یہ نکالا کہ میں بی بی سی اور وائس آف امریکہ سننے لگا، میں روزانہ انہیں سنتا، دس الفاظ روزانہ یاد کرتا، ریڈیو رپورٹ انائونسر کے لہجے میں نقل کرتا، حفظ کی وجہ سے میری یادداشت بڑی شاندار تھی، میں پوری پوری ریڈیو رپورٹ یاد کرجاتا تھا، ساری ساری خبریں مجھے ازبر ہوجاتیں، میں شام کو کھیتوں میں نکل جاتا، پودوں، درختوں اور فصلوں کو یہ ساری خبریں، یہ ساری رپورٹیں انگریزی لہجے میں سناتا۔ میں برسوں یہ پریکٹس کرتا رہا، یہاں تک کہ مجھے انگریزی لہجے پر عبور حاصل ہوگیا، لوگ میری انگریزی سن کر چونک اٹھے اور دعوے سے کہتے کہ میں امریکہ لندن میں پیدا ہوا ہوں، کالج میں مَیں نے انگریزی کتب کا مطالعہ بھی شروع کردیا۔ اس سے میرے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہوگیا، میرے دوسرے مضامین بھی اچھے تھے، ان میں بھی میرے نمبر اچھے تھے، کالج جاتا تو میں شلوار کرتا پہن رکھا ہوتا تھا، پاؤں میں کھلی چپل ہوتی تھی اور سر پر عمامہ، شروع شروع میں لوگ میرا مذاق اڑاتے تھے، لیکن میری قابلیت نے جلد ہی انہیں میرے احترام پر مجبور کردیا، بی اے میں میری یونیورسٹی میں پوزیشن آگئی، ان دنوں امریکہ نے تیسری دنیا کے نوجوانوں کو تعلیمی وظائف دینا شروع کیئے تھے، میں نے اپلائی کیا، ٹیسٹ انٹرویو ہوا، میری اس میں پہلی پوزیشن تھی، انہوں نے میرے حلیئے پر ہلکا سا اعتراض کیا، لیکن میں نے ان سے کہا: ’’ اگر سکھوں، یہودیوں اور عیسائیوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کو وظائف دیتے وقت ان کے حلیئے پر اعتراض کرتے ہیں تو مجھ پر بھی کریں، ورنہ پھر دوسروں کی طرح مجھے بھی برداشت کریں ۔ ‘‘ وہ لوگ ہنس پڑے، یوں مجھے میرے حلیئے سمیت امریکہ ایک بہت بڑی یونیورسٹی میں داخل مل گیا، وہاں بھی لوگ مجھے مڑ مڑ کر دیکھتے تھے، لیکن میں نے کسی کی پروانہ کی، میں نے اپنے ڈین سے مل کر نماز کی اجازت لے لی، انہوں نے میرے لیئے اپنے دفتر کا ایک کارنر مخصوص کردیا، اچھا طالب علم تھا، مجھے تمام متعلقہ علوم ازبر ہوتے تھے، میں کل ہونے والی پڑھائی کے بارے میں پہلے ہی سے تمام مواد پڑھ لیتا تھا، اپنا کام وقت پر کرتا تھا انگریزی میری بہت اچھی تھی، لہذا تمام اساتذہ اور طالب علم میرا احترام کرنے لگے، ایک دن کلاس کے دوران میں قرآن مجید کی تلاوت کی تو تمام لوگ حیران رہ گئے، ان کے لیئے یہ حیران کن بات تھی کہ مجھے پورا قرآن زبانی یاد ہے، انہوں نے میرا امتحان شروع کردیا، اب میں فارغ وقت میں انہیں قرآن مجید سنانے لگا، میں نے انہیں قرآن مجید کے احترام کے بارے میں بتادیا تھا، میں جب تلاوت شروع کرتا تھا تو خواتین خود بخود سر ڈھانپ لیتی تھیں، لڑکے سگریٹ بجھا دیتے تھے اورباتیں کرنے والے خاموش ہوجاتے تھے ۔ امریکہ میں ایک اور دلچسپ روایت ہے، وہاں مختلف ادارے یونیورسٹیوں سے رابطہ کرتے ہیں، اور مختلف شعبوں میں بہترین پوزیشن لینے والے طالب علموں کو اپنے ادارے میں نوکری کی پیشکش کرتے ہیں، یونیورسٹی کے پروفیسر ان نوکریوں کی تقسیم اداروں کی سطح اور طالب علموں کی کارکردگی کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں، میری پوزیشن چونکہ سب سے اچھی تھی، لہذا میرے ڈین نے میرا نام ایک ملٹی نیشنل کمپنی کو دے دیا، میں انٹرویو کے لئے گیا تو وہ لوگ بھی اپنے دفتر میں ایک ’’طالبان‘‘ کو دیکھ کر پریشان ہوگئے، انہوں نے مجھے ’’ ان ٹرن شپ ‘‘ کی پیشکش کردی، میں نے وہ ادارہ جوائن کرلیا، میں وہاں جزوقتی ملازم تھا، لیکن چند گھنٹوں میں اتنا کام کرجاتا تھا، جتنا ان کے کل وقتی ملازموں کا پورا شعبہ نہیں کرتا تھا، میں چھ ماہ ان کا جز وقتی ملازم رہا، اس دوران میں نے کمپنی کوبعض مشورے دیے، انہوں نے طویل تکرار کے بعد ان پر عمل کیا، کمپنی کے منافع میں سو فیصد اضافہ ہوگیا، وہ میری کارکردگی پر حیران رہ گئے، چھ ماہ بعد انہوں نے مجھے پانچ ہزار ڈالر ماہوار کی آفر کردی، میں نے آفر قبول کرلیا، نوکری کے دوران میں نے ہمیشہ وقت کی پابندی کی، ذمہ داری سے بڑھ کر کام کیا، ماتحتوں کے ساتھ اخلاق کا مظاہرہ کیا، ان سے پیارو محبت سے کام لیا، لہذا میری کارکردگی نے امریکیوں کو حیران کردیا، میں حافظ ِ قرآن تھا، میرے سینے میں موجود قرآن مجید نے میری رہنمائی کی، وہ برکت بن کر میرے ساتھ ساتھ چلتا رہا، میرے سارے کام آسان ہوگئے، میں ترقی کرتا چلا گیا، یہاں تک کہ میری تنخواہ پچیس ہزار ڈالر ماہانہ ہوگئی، پوری کمپنی میں صرف۲۰؍ بندے تھے جن کی اتنی یا اس سے زیادہ تنخواہ تھی، میرا دائرہ کار بھی بڑھا دیا گیا ۔ ۲۰۰۰ء میں والد صاحب نے مجھے واپس آنے کا حکم دے دیا۔ میں نے استعفیٰ پیش کردیا، انہوں نے وجہ پوچھی، میں نے بتایا تو وہ مزید حیران ہوگئے کہ ایک شخص اپنے بوڑھے والد کی خواہش پر اتنی بڑی نوکری چھوڑ کر جارہا ہے۔ انہوں نے مجھے سمجھایا، جب میں نہ مانا تو انہوں نے ایک عجیب فیصلہ کیا، انہوں نے پاکستان میں اپنا دفتر کھولنے کا اعلان کردیا، انہوں نے یہ دفتر بنایا، عملہ رکھا اور مجھے کنٹری منیجر بنا کر یہاں بھجوادیا۔

یہاں میرے اختیارات کا یہ عالم ہے کہ پورے ایک مہینہ کے لیئے جہاز چارٹر کرسکتا ہوں، دس کروڑ روپئے تک کا چیک ہیڈ کوارٹر کی منظوری کے بغیر سائن کرسکتا ہوں، ایشیاء کے ۱۲؍ ممالک میرے ماتحت ہیں، لوگ میرا حلیہ دیکھتے ہیں اور پھرمیری پوزیشن پر نظر ڈالتے ہیں تو انہیں یقین نہیں آتا، آپ کو بھی حیرانی ہوگی، میں نے پوری زندگی شیو نہیں کی، کوئی نماز قضا نہیں کی، روزہ نہیں چھوڑا، میں نے پوری زندگی پتلون نہیں پہنی، شرٹ نہیں پہنی ، ٹائی نہیں لگائی، سرننگا نہیں رکھا، لیکن اس کے باوجود ملٹی نیشنل کمپنی کی انتظامیہ میں شامل ہوں، لوگ ہم سے نفرت کرتے ہیں، وہ ہمیں دہشت گرد اور جنونی سمجھتے ہیں، ہم ان کی رائے بدل نہیں سکتے، لیکن اگر ہم اس دنیا میں ان لوگوں کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان لوگوں کو اپنی محنت، قابلیت اور ذہانت سے متاثر کرنا ہوگا، اگر مدرسے کا ایک بچہ ایسا کرسکتا ہے تو ہم لوگ اپنی صلاحیتوں سے انہیں متاثر کیوں نہیں کرسکتے ۔

نوٹ: اس مضمون کو رفاہ عام کے لیئے کاپی پیسٹ کی عام اجازت ہے

You may also like:

This is the post on the topic of the عمر بشیر کی زندگی کی سچی داستان . The post is tagged and categorized under Tags. For more content related to this post you can click on labels link.
You can give your opinion or any question you have to ask below in the comment section area. Already 0 people have commented on this post. Be the next one on the list. We will try to respond to your comment as soon as possible. Please do not spam in the comment section otherwise your comment will be deleted and IP banned.

No comments:
Write comments

Trending!

–>